ماں کا دودھ ایک مکمل غذا ہے، اس میں وہ سب کچھ ہوتا ہے جس کی ایک شیر خوار بچے کو ضررت ہوتی ہے، بلا شبہ ماں کے دودھ میں وہ تمام ضروری اجزاءپائے جاتے ہیں جن کا نعم البدل کوئی مصنوعی دودھ فراہم نہیں کر سکتا۔ ہر نوزائیدہ بچے کے لئے ماں کا دودھ بہترین غذا ہے اور پیدا ہونے والے بچے کیلئے ماں کی طرف سے پہلا تحفہ۔ بچے کے پیدا ہونے کے بعد ماں کے دودھ میںکھیس یا پیوسی (Colustrum) کا افراز ہوتا ہے۔ کھیس میں پروٹین، چکنائی جذب کرنے والے حیاتین اور دیگر صحت بخش خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق کھیس نوزائیدہ بچے کیلئے بہترین متوازن اور صحت بخش غذا ہے۔اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جہاں آنول نال بچے کو فراہمی غذا کا کام چھوڑتی ہے ، ماں کا دودھ اس ذمہ داری کو سنبھال لیتا ہے۔ یہ ایسے بہت سے زندہ خلیوں پر مشتمل ہوتا ہے جو نوزائیدہ بچے کو ان بے شمار عوامل سے محفوظ رکھتے ہیں جو امراض کا سبب بنتے ہیں۔
ایک ماہر کے مطابق بچے کے پیدا ہونے کے ایک گھنٹے کے اندر اندر اسے ماں کا دودھ دے دینا چاہئے۔ یونی سیف کی تجویز یہ ہے کہ ولادت کے محض نصف گھنٹے کے اندر بچے کو ماں کا دودھ مل جانا چاہئے مگر ہمارے ہاں کے زچہ خانوں کا انتظام کچھ اس قسم کا ہے کہ ولادت کے بعد بچے کو ماں سے الگ رکھا جاتا ہے، ماں کے لئے بچے کو دودھ پلانا تو درکنار اسے دیکھنا تک محال ہوتا ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو سکے، بچے کو ماں کا دودھ پلایا جائے۔ اس سے ماں کو ایک فائدہ یہ ہو گا کہ اس کے دماغ میں پیغام جائے گا کہ دودھ کی ضرورت ہے اور دودھ کی افزائش شروع ہو جائے گی۔ آج کل بھی معالجین کا یہ اصرار ہوتا ہے کہ زچگی کے بعد ماں کو آرام کرنے کا موقع دیا جائے اور بچے کو اس سے دور رکھا جائے۔ ایسے معالجین کے لئے یہ بات قبول کرنا یقینا مشکل ہو گی، مگر اس بات کی ضرورت ہے کہ زچگی کے فوراً بعد ماں کو بچے کو اپنا دودھ پلانے کی اجازت دی جائے۔ اس صورت میں ماں کو جو تسکین اوراطمینان میسر آئے گا وہ یقینا ماں کی صحت کی بحالی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس کے علاوہ بچے کا چھاتی سے دودھ پینے کا عمل ”اوکسی ٹوسن“ کے افراز کو بڑھائے گا۔ یہ جزو زچگی کے تیسرے مرحلے میں آنول اور رحمی کھنچاﺅ میں ممد ومعاون ثابت ہوتا ہے۔
ماں کا دودھ ایک مکمل غذا ہے۔ اس کے اندر وہ سب کچھ ہوتا ہے جس کی ایک نوزائیدہ کو ضرورت ہوتی ہے۔ دودھ بنانے والے اداروں نے ماں کے دودھ کی نقل پر دودھ تیار کیا، مگر تمام اجزاءپائے جانے کے باوجود اس مصنوعی دودھ کا مقابلہ ماں کے دودھ سے نہیں کیا جا سکتا۔ بلاشبہ ماں کے دودھ میں ایسے اجزاءپائے جاتے ہیں جن کا نعم البدل نہیں۔
دودھ کی مقدار میں کمی
ماﺅں کو دودھ کی مقدار میں کمی سے نہیں گھبرانا چاہئے کیونکہ دودھ کی آمد کا انحصار دودھ کی طلب اور فراہمی کے اصول پر ہوتا ہے۔ چنانچہ بچہ جتنا دودھ چوسنا چاہتا ہے، اتنا ہی دودھ جسم پیدا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بچے کو بھوک لگتی ہے، اسی وقت دودھ پلایا جاتا ہے۔ دوسری جانب اللہ نے یہ نظام رکھا ہے کہ بچے کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسے کتنا دودھ چاہئے۔ وہ روزانہ پانچ سے دس بار تک دودھ پیتا ہے۔ کبھی یہ وقت بیس بار تک بھی بڑھ جاتا ہے یہ وقت ماں کے لئے آزمائش کا ہوتا ہے۔کچھ ماﺅں کے ہاں کافی مقدار میں دودھ کی افزائش ہوتی ہے اور اگر اس میں کمی ہو جائے تو اسے نفسیاتی مسئلہ خیال کرتی ہیں۔ دراصل مائیں دودھ کے بہاﺅ کے نظام کو بھی نہیں سمجھتیں اس لئے ابتداءمیں دودھ کا بہاﺅ کم ہو تو پریشان ہو جاتی ہیں۔ یہ ایک حیران کن حقیقت ہے کہ اگرچہ ولادت کے دو سے چار روز تک نوزائیدہ کو پانی یا کوئی اور غذا درکار نہیں ہوتی، مگر دودھ پینے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جتنی بھوک ہو، وہ دودھ پیتا ہے اور سو جاتا ہے۔ یہ مقدار کم ہوتی ہے، مگر بچے کے لئے کافی ہوتی ہے، لیکن ماں پریشان ہو جاتی ہے۔
بچے کی بہتر ذہنی وجسمانی نشوونما کیلئے عمر کے پہلے چار سے چھ ماہ تک ماں کا دودھ بطور خاص تجویز کیا جاتا ہے۔ جو بچے ماں کا دودھ پیتے ہیں ان کو بوتل سے دودھ پینے والے بچوں کے مقابلے میں دستوں کی کم شکایت ہوتی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ماں کا دودھ پینے والے بچے کا نظام ہضم بہتر ہے۔بچے کو دودھ پلانا ماں کے لئے بھی فائدہ مند ہوتا ہے اگر ماں پابندی سے اپنا دودھ بچے کو پلاتی ہے تو استقرار حمل کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ اگر وہ چھ ماہ کے بعد تک اپنا دودھ پلاتی رہتی ہے اور بچے کو دوسری غذائیں بھی دیتی ہے تو استقرار حمل التواءمیں پڑ سکتا ہے مگر اس کا امکان باقی رہتا ہے۔ یہ ایک اہم اصول ہے کہ بچہ جتنا زیادہ ماں کا دودھ پئے گا، حمل ٹھہرنے کا امکان اتنا ہی کم ہو گا۔ عمل تولید کے چھ سے بارہ ماہ تک یہ اثر باقی رہتا ہے۔ماں کا بچے کو اپنا دودھ پلانا ماں کے رحم کو واپس اپنی اصل حالت میں لانے میں بھی معاون ہوتا ہے۔ یہ گویا ایک قدرتی طریقہ ہے جس کے ذریعے سے ماں دوبارہ اپنی اصل حالت میں آتی ہے۔ اگر کوئی ماں بچے کو اپنا دودھ نہیں پلاتی تو اس کا رحم سکڑ کر اپنی اصل حالت پر نہیں آئے گا۔ کبھی دودھ پلانے میں ماں کے پیٹ میں درد بھی ہوتا ہے، لیکن اس درد سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں یہ درد رحم کے سکڑنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔اگر ماں دودھ پلاتی رہتی ہے تو دوران حمل جمع ہو جانے والی چربی بھی گھل جاتی ہے کیونکہ چربی کا یہ ذخیرہ دودھ کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔چھاتی کا دودھ پلانے کا عمل معاشی لحاظ سے بھی فائدہ بخش ہے۔ اسکے علاوہ سفر وسیاحت کے دوران بھی یہ مشکل پیش آتی ہے کہ بچے کی دودھ کی بوتل کیسے تیار کی جائے اور دودھ کہاں سے حاصل کیا جائے لیکن اپنا دودھ پلانے والی مائیں ان مسائل سے بچی رہتی ہیں۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 810
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں